جنگ عظیم اول کے آکری ایام میں جب جرمنوں نے دنمارک کی کڑی ناکی بندی کر رکھی تھی تو وہان کے باشندے خوراک کی کمی کی وجہ سے بھوکوں مرنے لگے تھے۔ اس وقت سرکار نے ڈنمارک کے مشہور و معروف ماہر خوراک ڈاکٹر کو جو خردونوش لیبارٹری کے ڈائرکٹر تھے۔ ان کو منتظم خوراک کے عہدے پر مومور کیا۔ 

انہوں نے تمام لوگوں کو وہی خوراک دینی شروع کر دی جو جانوروں کو دی جاتی تھی۔ یعنی ایک سال تک اہوں نے سارے ڈنمارک والوں کو چوکر سمیت آتے کی روتی ، چھلکا سمیت دال اور ساگ سبزی جانوروں کی طرح دئے جانے والے چارے اور دانہ پر رکھا۔ 

جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک بھی قحط سالی سے بچ گیا اور ساتھ ساتھ لوگوں کی صحت بھی بہت اچھی ہو گئی اور اموات بھی بہت کم ہو گئی ۔ مثال کے طور پر وہان اموات کی رفتار بہت زیادہ تھی اور اس کام کے بعد بہت زیادہ حد تک کم ہو گئی۔ جو پچھلے برسوں مین کبھی بھی نہیں ہوئی۔ 

اناجوں ااور ترکاریوں میں نمک اور وٹامنز کا حصہ زیادہ تر ان کے چھلکوں اور بھوسی میں ہوتا ہے گہیوں کی بھوسی ملے آٹے میں میدہ کے مقابلے میں چار گناہ فاسفورس اور چھ گناہ چونا چھ گناسوڈا زیادہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ گہیوں میں لوہا سلفر پوٹاشیم وغیرہ بھی پائے جاتے ہیں۔ 

یہ قیمتی عناصر صرف بھوسی میں سے ہی ملتے ہین ۔ یہ کھار اور وٹامنز جسم کے لئے برے ضروری ہے۔ قدرتی علاج کے ماہر اس بھوسی کو بری قدر کی نگا ہ سے دیکھا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ خون بھی صاف کرتے ہیں۔ خوراک میں سے اجزا کے نکل جانے کی وجہ سے چہرہ نیلا پڑجاتا ہے۔ اور جسم کمزور ہو جاتا ہے۔ 

آج کل پاکستان میں بھی ایسے ہی خوراک دی جاتی ہے ہے بن رہی ہے ہے آپ سب لوگوں کو معلوم ہوگا کہ پاکستان میں کاشتکاری والی زمین کی جگہ پر لگ جاتی ہے ہے اور جگہ جگہ کے اندر بنانے والی فیکٹری. کیمیکل والا پانی زمین کے اندر کرتے ہیں اور جب یہ پانی فصلوں کو پتا ہے تو منڈی میں قیمت گلزار ستیاں اور پھل کو کہتے ہیں ہیں جن کو کھا کر انسان ماروں رہے ہیں ہیں آپ اندازہ کے مطابق پچھلے پانچ سال کا کا اور اب کا نظریہ بہت زیادہ ہو چکی ہیں.

اب کسان بھی کیا کریں کیونکہ حکومت نہ تم کی بات ہوتی ہے ہے اور نہ ہی ان کو اس بات کیلئے کرتی ہیں کہ وہ اپنا کیمیکل زدہ پانی ی1ر کے ذریعے اے زمین کے اندر بھیجیں. جی ہمارے ہاسپٹل بیماریوں کی وجہ سے بھر چکے ہیں شاہی لوگوں کو اچھی خوراک مل رہی ہے نہ اچھا علاج مل رہا ہے لوگوں در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور مہنگائی نے کمر توڑ کے رکھ دیا ہے جو لوگ پہلے تھوڑا بہت ہرٹ کالے تیلے اب وہ لوگ اس سے بھی گئے گزرے ہیں.

اگر یہ کام اسی طرح چلتا رہا تو پھر لوگ صرف اسٹالوں میں ملیں گے حکومت کو چاہیے کہ لوگوں کی صحت کا خیال رکھیں ان کو اچھی سہولیات فراہم کرے کرے اور فیکٹریاں اور ملوں کے مالکان کو اس بات پر مطمئن اس بات پے وہ سرکاری کہ وہ اپنی ملوکاں کے اندر سے پانی زمین میں نہ بھیجیں اور اگر بیچنا بھی ہے تو اس طریقہ کار کے ذریعے جو ہوچکا ہے اس کے ذریعے بھیجیں. جی اس سے حکومت کا استعمال پر لگنے والا فیصل آباد سارا کچھ